ملک کے موجودہ حالات اور ہماری ذمہ داریاں
ہمارا ملک 15 اگست 1947ء کو انگریزوں اور لاطینی فرانسیسی حکومتوں کی ظلم و ستم سے آزاد ہوا اور 26 جنوری 1950ء کو ہندوستانی قانون نافذ ہوا اس قانون کے مطابق تمام عمرہ گزرا ہوں حکمرانوں کو اپنی حکمرانی وہ پالیسی قائم کرنے کا مکلف بنایا گیا یا جوں جوں وقت گزرتا گیا وقت کے عمرہ اس قانون کے مطابق اپنی حکمرانی و پالیسی قائم کرتے گئے لیکن جب سے وزیر اعظم نریندر مودی حکوم رانی کا باگ ڈور سنبھال لیا ہے تو اس سے ملک کی ترقی و ارتقا اور ہندوستانی ہندوستان کے دیگر مذاہب و ادیان کو چھوڑ کر مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے ہے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ان کے نام پر پر گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر مار دیا جا رہا ہے تو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جا رہا ہے کوئی تو ہندوستانی مسلمانوں کو وندے ماترم جیسے گندے اور شرکیہ کلام پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور طلاق ثلاثہ کے مسئلہ کو چھیڑ کر اسلامی قوانین اور ضوابط پر مداخلت اندازی کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں کبھی مدارس اسلامیہ کو دہشت گرد درد کا ڈاکٹر قرار دیا جا رہا ہے ہے پرسوں کے اخبار میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ 25 سال کے بعد گیارہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام سے بری کر دیا گیا اب بتائے سال کسی بے قصور انسان کو جیل کی سلاخوں میں قید کر کے رکھنا خواتین کی عزت و آبرو پر حملہ کیا جا رہا ہے آپ کو معلوم ہوگا چند مہینے قبل النبی آصف کے ساتھ بھی ہیں والد کا دردناک واقعہ کو سن کر انسانیت کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں پھر بھی ان مجرم نوجوانوں کو ہرممکن چھپانے کی کوشش کی گئی کبھی تو لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے سے منع کیا جا رہا ہے فی الوقت کشمیر کے معاملے کو لے کر مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی بیان بازیاں دی جا رہی ہے یہاں تک کہا جا رہا ہے ہے کہ مسلمان یا تو پاکستان جائیں قبرستان ہندوستان میں چینی کا کوئی حق نہیں موجودہ حالات بد سے بدتر ہو گئی پوری حکومت و قیادت مل کر مسلمانوں کے خلاف شادی سے رہی ہے مسلمانوں کو کو کیسے ذلیل اور رسوا کیا جائے آئے الغرض مسلمان ہر طرف سے پریشان نظر آرہا ہے ہے یاد رکھنا ہندی مسلمانوں 917 ترقی کے مدارج طے نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کے اندر ارادی اور عملی قوتوں کا اظہار نہ ہو مذہبی اشعار پر گامزن نہ ہو اور یہ بات ہے کہ جس قوم کے اندر حقیقت عملی قوتوں کا فقدان ہو مذہبی از حلال ہو وہ ہرگز ہرگز طرح کیوں لٹکا کے قابل نہیں رہتی بلکہ زبوں حالی وتنزل اس کا مقدر بن جاتی ہے اور یہی حال ہم مسلمانوں کا ہے آج مسلمانوں کے اندر فلسفہ توحید کلمہ دوم ہو چکی ہے آج عمرہ کے دل سے غیرت و حمیت اور ایمان کا نور بالکل نکل چکا ہے کیونکہ قانون الہی ہے میں اللہ رب العالمین ہمارے اعمال اور کرتوتوں کو ہماری تباہی و بربادی کا پیش خیمہ بتایا ہے آج مسلمان کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے اتنا بدلنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ساتھ ہمارا بگڑا ہوا معاشرہ بھی بدل جائیں اپنے اندر اتحاد و اتفاق ہمدردی اور باہمی نصرت عورت جو مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت و قوت ہے اسے مسلمانوں کو اپنانے کی ضرورت ہے اختلاف ابی حنیفۃ کو اپنے اندر سے باہر نکال پھینکنے اور طالبانیت فرقہ بندیوں کی جنسی اور بندشوں کو توڑ پھوڑ کرنے کی ضرورت ہے سات حضرت علامہ اقبال کے شعر کی مصداق بننے کی ضرورت ہے ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے مسلمانوں آج بھی ہم اپنی کھوئی ہوئی عزت و وقار پا سکتے ہیں آج بھی ہم غالب ہو سکتے دیگر قوموں کو مغلوب کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم اپنی ذمہ داری کو پہچانے کیسے یہ قانون الہی ہے لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبل ہی مہربانی فرما کر تم بھی نبی دا حکم خداوندی ہے ان ایک جسم کے مانند ہے المسلمو کا سارا دن واحد مسلمان کے آپسی حقوق ہے المسلمون من سلم المسلمون من زارنی انسانیت ہے من قتل کی ذمہ داری ہے دنیا کی حکومتوں قیادت ہمارے ہاتھوں میں آئے گی اور دشمنان اسلام سرنگوں ہوں گے یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف کرام رحمہم اللہ جب بھی کسی مسئلہ میں دو چار ہوتے تو قرآن و سنت ہی صفحے کے ذریعے دفاع کرتے تھے اب آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو اس پرمسرت موقع پر آشوب حالات میں ایمان و عمل صالح کے ساتھ زندگی گزر بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین کے ساتھ نہیں چھوڑنا چاہتا ہوں ہو کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے ہے
टिप्पणियाँ
एक टिप्पणी भेजें